عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے اہم نکات





خان ٹرمپ پریس کانفرنس کے اہم نکات

’اگر میں چاہوں تو دس روز میں افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹادوں۔ہم افغانستان میں اپنے فوجی دستے کم کرنے پر زور دے رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ زیر عمل ہے۔‘

(https://www.youtube.com/watch?v=mg8ST-ymYv0)


اے آر وائی کے رپورٹر جہانزیب کے اس لطیف نکتہ پر کہ بقول عمران آپ اپنے تمام وعدے پورے کریں گے، ٹرمپ نے مسکرا کر کہا: ’میں کروں گا!‘امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ وہ عمران خان کے ساتھ اپنی ملاقات کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان جس قدر پوٹینشل موجود ہے اس کو پوری طرح استعمال نہیں کیا گیا۔امریکا کا کردار ایک پولیس والے جیسا ہے۔جہانزیب کو مخاطب کر کے ہی ٹرمپ نے یہ متکبرانہ جملہ بولاکہ امریکا کوئی جنگ نہیں لڑ رہاہے کیونکہ اگر امریکا سنجیدہ ہو جائے تو میرے حکم پر محض ایک ہفتے میں افغانستان کا نام و نشان نقشہ ارض سے مٹ جائیگا لیکن میں ایک کروڑ افراد کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔ ایک پاکستانی صحافی نے سوال کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے خلوص کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیاہے۔ معاشی تباہ حالی کے اس دور میں کیا امریکا پاکستان سے واپس لی جانے والی امداد واپس کرے گا؟ٹرمپ نے وضاحت کی کہ امریکاپاکستان کو ۳.۱ارب ڈالر کی امداد دے رہا تھا۔ عمران خان کو مخاطب کر کے بولے: ’یہ آپ سے پہلے کی بات ہے۔‘لیکن پاکستان نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن میرے نزدیک جب ہم پاکستان کو یہ رقم ادا کر رہے تھے، اس وقت کی نسبت ابھی ہمارے تعلقات پاکستان کے ساتھ بہت بہتر ہیں۔لیکن ٹرمپ نے امداد کی بحالی اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی پائیداری کی امید دلائی،یہ کہتے ہوئے: ’پاکستان ایک اچھا ملک ہے۔ یہاں کے لوگ اچھے ہیں۔ میرے کئی دوست پاکستانی ہیں۔(عمران سے)نیویارک میں میرے کئی پاکستانی دوست ہیں، میں آپ کو ان کے متعلق بتاؤں گا۔(صحافیوں سے)’پاکستانی ذہین اور (عمران کی طرف اشار ہ کر کے) ان کی طرح محنتی ہیں۔ اس بارے میں کوئی دورائے نہیں۔‘ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ عمران خان نے فی الحال انہیں دورہ پاکستان کی دعوت نہیں دی ہے اور شاید آج کی ملاقات کے بعد انہیں دعوت ملے ہی نہیں لیکن انہیں ایسا لگ رہا ہے گویا انہیں دعوت ملے اور اگر ایسا ہوا تو انہیں پاکستان جا کر خوشی ہو گی۔اب تک کے ایک صحافی کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان سے قلیل تعداد میں امریکی فوجیوں کا انخلاء عمل میں آیا ہے اور یہ عمل فی الوقت سست روی کا شکار ہے۔طالبان سے مذاکرات جاری ہیں اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے مستقبل کے متعلق گفتگو ہو رہی ہیں۔ ٹرمپ نے مزید وضاحت کی کہ یہ پورا عمل جان بوجھ کر آہستگی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اگر امریکا چاہے تو افغانستان سے جڑے مسائل بیک جنبش شمشیر حل کر دے لیکن اس صورت میں لاکھوں افراد جان سے جائیں گی اور یہ چیزٹرمپ کو منظور نہیں۔چنانچہ افغان مسئلہ کے پرامن حل کے لیے امریکا اور پاکستان ملکر کام کریں گے اور ابھی تک یہ عمل کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ایک ہندوستانی صحافی کے سوال پر کہ افغان مسئلہ میں بھارت کیا کردار ادا کر سکتا ہے، عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں اور ٹرمپ کی تعریف کی کہ وہ جنگ پر امن کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ عمران خان کا عقیدہ ہے کہ اگر آبادی میں فوج بھیجی جائے تو اس سے فتنہ دبنے کے بجائے شدت اختیار کر جاتا ہے۔ خان نے پریس کانفرنس کے دوران بھی یہی کہا کہ افغانستان میں عسکری کاروائیوں سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور یہ کہ اس وقت دنیا افغان مسئلہ کے پرامن ترین موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان صلح صفائی کرا کے یہ تنازعہ ہمیشہ کے لیے مٹی تلے دبا دیا جائیگا۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا کے لیے کئی بڑھیا چیزیں ظاہرہونے جا رہی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ(عمران خان) کی قیادت میں پاکستان کے لیے بھی کافی بڑھیا چیزیں رونما ہوں گی۔ایران ایک مذہبی ملک ہے لیکن وہ لوگ جھوٹ بہت بولتے ہیں۔ ایران کی معیشت کافی کمزور ہے۔ ایک ملک کی حیثیت سے ایران کی پرفارمنس کافی خراب ہے۔ ان کے یہاں آئے روز مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔حال ہی میں ایران نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے سی آئی اے کے بعض جاسوسوں کو ایران میں گرفتار کر کے پھانسی دے دی۔ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس میں اس دعویٰ کو دوبارہ سختی کے ساتھ رد کیا۔ ایرانی حکومت جھوٹ اور پروپیگنڈے پر یقین رکھتی ہے۔ پھر عمران کی طرف مڑ کر بولے: ’پاکستان تو ایسا کبھی نہیں کرے گا، ہے نا؟‘عمران خان نے جواب دیا: ’ہرگز نہیں!‘ٹرمپ مسکراتے ہوئے صحافی سے مخاطب ہوئے: ’پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔‘ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والادنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ایران نے امریکا کی توہین کی۔ انہیں یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔مزید یہ کہا کہ اوباما ایڈمنسٹریشن نے ایران پر کافی ’سبزہ‘ خرچ کیا حالانکہ (خان کی طرف مڑ کر)یہ رقم پاکستان کے بہتر استعمال میں آتی]یہی جملہ پورٹوریکو کو دی جانے والی مالی امداد پر اعتراض کرتے ہوئے بھی فرمایا[۔نائنٹی ٹو نیوز کے خرم شہزاد سے مخاطب ہو کر کہا: ’مجھے پاکستانی رپورٹر اپنے والوں سے زیادہ پسند ہیں۔‘پاکستان نے اس سے قبل افغانستان کے معاملہ میں اپنا مکمل کردار ادا نہیں کیا۔ لیکن اب ہمارے پاس پاکستان میں ایک نئی لیڈرشپ ہے لیکن ا س سے قبل پاکستان نے امریکی لیڈرشپ کا احترام نہیں کیااور(کندھے اچکاتے ہوئے) یہ ایک حقیقت ہے۔عمران خان نے ایک پاکستان صحافی کے جواب میں کہا کہ پرامن افغانستان پاکستان کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔کشمیر کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران نے کہا کہ پاکستان نے اس تنازعہ کے حل کے لیے بے پناہ کوشش کی اور اب امید ہے کہ امریکا جو کہ دنیا کا طاقتورترین ملک ہے، اس مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرے گا۔جواباً ٹرمپ نے تذکرہ کیا کہ مودی نے کشمیر کے مسئلہ میں امریکا سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔خان نے کہا کہ اگر آپ(ٹرمپ) ثالثی کا کردار ادا کردیں تو اس صورت میں ایک ارب سے زیادہ افراد کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی۔عمران خان نے مزید کہا کہ یہ کہنا کہ پاکستانی صحافیوں پر کسی قسم کی کوئی قدغن ہے، ایک مذاق ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پچھلے دس ماہ کے دوران مجھے اپنے ہی میڈیا نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا۔ جواباً ٹرمپ نے مزاحاً کہا کہ جو کچھ میں نے سہا وہ اس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ایک صحافی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تذکرہ کیاتو ٹرمپ کہنے لگے کہ آفریدی کی رہائی کا معاملہ ضرور بلند کرینگے۔عمران خان نے ٹرمپ سے کہا کہ آپ دو یرغمالیوں کے متعلق جلد خوشخبری سنیں گے لیکن عافیہ صدیقی کا تذکرہ کرنے پر عمران نے بس اتنا کہا کہ یہ بعد کی بات ہے۔صدر امریکا نے بھی محض اتنا کہہ دینے پر اکتفاء کیا کہ ہم اس مسئلہ پر گفتگو کریں گے۔ٹرمپ نے البتہ خان سے وعدہ ضرور کیا کہ اگلے انتخابات میں وہ خان کے حق میں کمپین چلائیں گے۔ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو دس سے بیس فیصد تک بڑھانے کا بھی عندیہ دیا۔ مزید یہ کہا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی ایک دوسرے پر خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن یہ سب افواہیں ہیں اور میں ان دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتاہوں۔

Comments